Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

ہاجرہ اس کے لیے ایک بہترین دوست ثابت ہوئی تھی گو کہ عمروں میں ان کی خاصا فرق تھا لیکن دوستی میں عمروں کی نہیں سچائی و خلوص کی اہمیت ہوتی ہے اور جس تکلیف ودقت سے وہ گزر رہی تھی اس کڑے وقت میں اس کو جس محبت و اپنائیت کی ضرورت تھی وہ اس کو ہاجرہ کی پر خلوص دوستی میں مل گئی تھی اس دیار غیر میں اس کے زخمی دل پر وہ محبت سے مرہم لگارہی تھی اور اس نے بھی اپنا دل کھول کر اس کے آگے رکھ دیا تھا کوئی بات نہیں چھپائی تھی ہاجرہ افسردگی سے گویا ہوئی ۔
 
”عورت پیار میں لٹتی ہے یا اعتبار میں، یہی المیہ ہے عورت کا “
”ہاں ہاجرہ! پہلے میں نے اعوان پر بھروسہ کیا اور پھر ساحر مجھ سے محبت کا ڈھونگ رچا کر مجھے اس دنیا میں چھوڑ گیا، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا ہے “ماہ رخ اپنا بھیگا چہرہ صاف کرتی ہوئی گویا ہوئی ۔


 

”مرد کو جب اپنی طاقت کا بے جا غرور ہوجاتا ہے تو وہ طاقت کے نشے میں ڈوب کر فرعون بن جاتا ہے پھر وہ تمام ابلیسیت خود پر لازم کرلیتا ہے، غفران احمر بھی تو ان ہی گمراہیوں کا مسافر ہے اس کی طرح اور بھی دوسرے لوگ ہیں جو یہاں حرم سجائے بیٹھے ہیں جن کا کام عورتیں ایک دوسرے کو گفٹ کرنا، کسی کھلونے کی مانند دل بھر نے تک کھیلنا ہے اور جب ہمارے بالوں میں چاندی کے تاروں کی تعداد بڑھتی ہے تو ہم ان جیسے عمر رسیدہ اور ہوس پرست مردوں کے لیے قابل قبول نہیں رہتیں پھر ہماری جگہ تم جیسی نوخیز کلیاں لے لیتی ہیں اور ان کے ابلیسی کھیل جاری ہی رہتے ہیں “
”تم یہاں کیوں رکی ہوئی ہو ہاجرہ! چلی کیوں نہیں جاتیں، بھاگ جاؤ یہاں سے ، باہر سے خوب صورت اور روشن دکھائی دینے والے ان محلوں کے اندر بے حد اندھیرا ہے بہت حبس و بے سکونی ہے “ماہ رخ اس کا جھریوں زدہ چہرے دیکھتے ہوئے ہمدردی سے بولی۔
 
”یہاں آنے کے بے حد راستے ہیں مگر جانے کا ایک بھی نہیں ہے اس محل کی دیواریں غفران احمر کی طرح سخت وبے لچک ہیں ان میں اتنی بھی گنجائش نہیں ہے کہ ان سے کوئی سر ٹکرا کر ہی مرجائے۔ یہاں صرف موت ہی زندگی سے آزادی دلاسکتی ہے “ہاجرہ نے مغموم لہجے میں کہا، ماہ رخ کی آنکھیں پھر بھیگنے لگیں۔ 
”بہت دل لگ گیا ہے تمہارا اس کل کی آئی لڑکی کے ساتھ ، ہر وقت تم اس کے ساتھ بیٹھی سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہو “دلربا کی کڑک دار آواز پر وہ دونوں چونک اٹھی تھیں۔
 
”اوہو! ایک تو تم اس طرح دبے پاؤں آکر ڈرا دیتی ہو دلربا! آؤ بیٹھو تم بھی ہمارے ساتھ باتیں کرو، کیوں غصہ کرتی ہو “ 
”کیوں بیٹھوں تمہارے ساتھ نہیں بیٹھنا اس کے ساتھ جو میری دشمن ہے “وہ نفرت سے ماہ رخ کو گھورتی ہوئی بولی۔ 
”میں آپ کی دشمن نہیں ہوں دلربا! پھر میں آ پ سے دشمنی کیوں کروں گی ، میں آپ کی بے حد عزت کرتی ہوں“ ماہ رخ نے آگے بڑھ کر لجاجت سے کہا۔
 
”یہ دشمنی نہیں تو کیا ہے غفران احمر کو مجھ سے چھین لیا ہے جب سے تم آئی ہو ان کو میری پروا نہیں رہی پھر کہتی ہو تم میری دشمن نہیں ہو “
”احمر کا رویہ بدلنے میں اس بے چاری کا کوئی قصور نہیں ہے اگر تم کو غفران احمر کی بے رخی کا اتنا ہی ملال ہے پھر یہ شکایت تم ان سے کیوں نہیں کرتی “ہاجرہ نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ تن فن کرتی اس کی بات کو نظر انداز کرتی ہوئی واپس چلی گئی ۔
 
###
مثنیٰ بیٹے کی جدائی میں ہمت ہار کر بستر پر پڑ گئی تھیں کوئی غذا و علاج ان پر اثر انداز نہیں ہورہا تھا وہ دن بہ دن کمزور ہوتی جارہی تھیں۔ عشرت جہاں ان کو گھر لے آئی تھیں اکلوتی بیٹی کے پے درپے صدموں نے ان سے بھی زندگی کی خوشیاں چھین لی تھیں۔ 
منیر اور مثنیٰ شوہر کی وفات کے بعد ان دونوں بچوں سے ہی ان کی دنیا آباد تھی، منیر شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی فیملی سمیت پاکستان سے چلا گیا تھا، اس کا واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا وہ اپنی زندگی میں اتنا مگن تھا کہ کبھی ماں کو فون کرنے کی بھی فرصت نہ ملتی تھی، ادھر مثنیٰ کے دکھوں میں وہ خود بھی گھل رہی تھین، عرصہ ہوگیا تھا کسی خوشی نے ان کے گھر کا رخ نہیں کیا تھا۔
 
”مما کن سوچوں میں گم ہیں آپ ؟“مثنیٰ نے تکیوں کے سہارے بیٹھتے ہوئے کہا۔ 
”بیدار ہوگئیں بیٹا! میں حمیدن سے کہہ کر ناشتا بنواتی ہوں “وہ عینک درست کرتی ہوئی کھڑی ہونے لگی معا ً وہ گویا ہوئی ۔ 
”میرا ناشتے کا موڈ نہیں ہے مما! پلیز آپ بیٹھ جائیں “
”رات میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور اب بھی منع کر رہی ہو اس طرح کمزوری بڑھے گی پھر بیماریاں پیچھا چھوڑنے والی کہاں ہیں کمزور پاکر وہ مزید حملہ آور ہوں گی میں جوس منگواتی ہوں ، ناشتا کچھ دیر بعد کرلینا “ 
”ابھی تو میرا دل جوس کے لیے …“
”پلیز مثنیٰ صفدر کا ہی خیال کرلو کچھ وہ پہلے ہی سعود کی طرف سے پریشانی میں گرفتار ہے، رہی سہی کسر آپ نے اس طرح خود کو کمزور کرکے پوری کردی ہے وہ بچہ پریشانیوں میں گھر کر رہ گیا ہے “وہ اس کی بات قطع کرکے سخت لہجے میں گویا ہوئیں۔
 
”میں نے از خود کچھ نہیں کیا ہے، بیمار پڑنا غیر اختیاری عمل ہے مما “
”لیکن صحت مند ہونے کے لیے کوشش کرنا ہمارا کام ہے ۔ “
”مجھے نہیں معلوم مما، کیا درست ہے کیا غلط، میں یہاں سے کہیں دور جانا چاہتی ہوں، فرار چاہتی ہوں حالات کے ان لامتناہی سلسلوں سے تھک گئی ہوں میں۔ مسائل کے مزید واراب قطعی برداشت نہیں ہوتے“ عشرت جہاں نے بیٹی کے پژمردہ مرجھائے چہرے کو دیکھا جھک کر اس کے بالوں کو بوسہ دیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر شفقت بھرے لہجے میں بولیں۔
 
”حالات کی سختی و تنگی سے گھبرا کر شاید ایک عورت تو فرار حاصل کرسکتی ہے مگر میری جان! ایک ماں کبھی ایسا نہیں کرتی ہے، دل برداشتہ مت ہو ، رات جتنی سیاہ ہوتی ہے اس کا سویرا اتنا ہی روشن ہوتا ہے، آپ کے مقدر پر چھائی یہ سیاہ رات بہت جلد تمام ہونے کو ہے، یہ میرا دل کہتا ہے اور ایک ماں کا دل اولاد کے معاملے میں دھوکا نہیں دیتا “
”کاش ایسا ہی ہو مسرتوں کے لیے ترستے میرے دل کو بھی قرار مل جائے “
”پری کو بلالوں کافی عرصہ ہوچکا ہے اسے گھر آئے ہوئے صفدر بھی کہہ رہے تھے اب تو صفدر کو بھی اس کا احساس ہونے لگا ہے “ 
”جب دل پر چوٹ پڑتی ہے سارے احساسات بیدار ہوجاتے ہیں مما!ً کل تک جن پتھریلی راہوں کی میں مسافر تھی آج میرے ساتھ صفدر کو بھی مقدر نے ان راستوں پر چلنے کے لیے مجبور کردیا ہے تو ان کو احساس ہورہا ہے اولاد کی جدائی برداشت کرنا کس قدر مشکل ہے “
”آپ سے زیادہ اس دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے مثنیٰ کیا کروں، پری کو بلواؤں یا نہیں ؟آپ نے پہلے بھی پری کو بلوانے سے منع کردیا تھا “وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولیں۔
 
”بلوالیں، میں سوچ رہی تھی ایسے ٹینشن زدہ ماحول میں نہیں بلواؤں گی مگر معلوم نہیں یہ کب ختم ہوں گی“ انہوں نے کہتے ہوئے ملال سے آنکھیں موند لیں۔ 
###
عائزہ کی شادی میں دو دن رہ گئے تھے آج شام میں اس کی ساس اپنے چند عزیزوں کے ساتھ آکر اس کی رسم حنا ادا کرگئی تھیں گزشتہ شب اس کو مایوں بٹھایا جاچکا تھا آصفہ اور عامرہ اپنی فیملیز کے ساتھ موجود تھیں، برائے نام مہمان ہونے کے باوجود بھی گھر کا سناٹا ٹوٹ گیا تھا اور رونق پھیل گئی تھی ہر سو پھیلی بوجھل فضا خوش گواریت میں بدل گئی تھی۔
فاخرہ بری بھی ساتھ لائی تھی اور سارا بری کا سامان یہیں چھوڑ گئی تھی اس وقت تو سب نے تکلفاً سامان سرسری سا دیکھا تھا۔ رات کھانے کے بعد لڑکیاں عائزہ کے کمرے میں چلی آئیں اور وہ تینوں سوٹ کیس میں سے سامان نکال کر خوب اچھی طرح جائزہ لے رہی تھیں۔ اماں جان بیڈ پر بیٹھیں پان بنانے کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کو بغور دیکھ رہی تھیں، زرق برق ملبوسات، جیولری اور دیگر سامان دیکھ کر صباحت بے حد خوش تھیں اول خوشی یہ تھی کہ بیش قیمت سارا سامان ان کی بیٹی کے لیے تھا۔
دوئم یہ احساس تفاخر ان کو مغرور کر رہا تھا کہ یہ تمام مان ان کے میکے کی طرف سے ان کی بیٹی کو مل رہا تھا، اگر بری ہلکی پھلکی ہوتی تو وہ سسرال میں اپنی سبکی محسوس کرتیں اور نہ اس طرح سے اکڑ کر باتیں بناسکتی تھیں جس طرح بیٹھی ہوئی بنارہی تھیں۔ 
”مجھے بالکل امید نہیں تھی بھابی اس طرح میری عائزہ کو چاہیں گی ، یہ شادی کا سوٹ دیکھ رہی ہو ایک لاکھ سے اوپر کا ہے اور ولیمے کے سوٹ کا ابھی آرڈر دیں گے وہ اس سے بھی ڈبل قیمت کا ہے “وہ جھلماتے بلڈ ریڈ اور بوٹل گرین کلر کا لہنگا سوٹ اماں کو دکھاتے ہوئے گویا ہوئی تھیں اماں نے بھی پوتی کے لیے آنے والے اس عروسی سوٹ کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
 
”ماشاء اللہ فاخر ہ نے قلیل وقت میں بہترین تیاری کی ہے، بری کا سارا سامان ہی محنت و محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ، اللہ میری بچی کو برتنا نصیب کرے، آمین“
”ہماری بھی یہی دعائیں ہیں بھابھی! عائزہ اپنے گھر میں سدا خوش رہے لیکن ایک بات میرے دل کو نہیں بھاتی ہے “وہ چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوئی ۔ 
”فاخر اور عائزہ کا ولیمہ فاخرہ بھابھی حج کی ادائیگی کے بعد کرنا چاہتی ہیں ابھی تو حج میں بھی کئی ماہ باقی ہیں یہ چند ماہ وہ سیروتفریح میں لگائیں گے کسی ملک میں پھر حج کے لیے جائیں گے اس دوران چار پانچ ماہ صرف ہوں گے اور اتنے عرصے بعد ولیمہ کرنا اچھا لگے گا ؟ولیمہ سنت ہے اور سنت کے مطابق ان کو دوسرے دن ہی ولیمہ کرنا چاہیے آپ اپنی بھابی کو سمجھائیے اس بارے میں “
”ارے عامرہ! کیا سمجھاؤں بھابی کو ؟سمجھایا ان کوجاتا ہے جن کو ہم اچھی طرح جانتے نہ ہو، اب یہ تو تم بھی خوب جانتی ہو فاخرہ بھابی اور بھائی جان کا حلقہ احباب کتنا وسیع ہے ہزاروں لوگوں کو انوائٹ کرنا پھر ارینجمنٹ کرنا آسان تو نہیں ہے میرے میکے والے فیاض کی طرح بے پروا نہیں ہیں جو اپنی اولاد کی خوشیوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔
‘ہمارے خاندان میں اپنوں سے زیادہ غیروں کی پروا کی جاتی ہے دوسروں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ اب وہ اس طرح چار مہمانوں کو بلا کر ولیمہ کرنے سے رہیں ‘وہ منہ بگاڑ کر گویا ہوئیں۔ 
”فیاض کو الزام دینا چھوڑ دو صباحت! جو نصیب میں لکھا ہے وہ ہوکر رہے گا “آصفہ نے سمجھایا تھا وہ محض سر ہلاکر رہ گئیں۔ 
###
شادی کی وجہ سے صباحت آبرو کو ہاسٹل سے بلانے پر راضی ہوگئی تھیں اور آبرو آتے ہی پری کی پرچھائی بنی تھی وہ ہر دم اس کے ساتھ تھی ، اس وقت بھی وہ اس کی فرمائش پر سینڈوچ بنارہی تھی معاً طغرل وہاں چلا آیا 
”تم زیادہ تر کچن میں ہی کیوں موجود رہتی ہو ؟میرا مطلب ہے اندر عائزہ کے روم میں ساری لڑکیاں مہندی لگانے میں مصروف ہیں اور تم یہاں چولہوں کے آگے کھڑی کام میں مصروف ہو “
پری نے اس پر کوئی توجہ نہ دی خاموشی سے سینڈوچ میکر کو دیکھتی رہی ۔
 
”میں تم سے بات کر رہا ہوں ، جواب دو میری بات کا۔ تم خود کو سمجھتی کیا ہو یار! ہمیشہ مجھے غصہ دلانے والی حرکتیں کرتی ہو پھر غصے میں مجھ سے کوئی گستاخی ہوجاتی ہے تو ناراض ہوکر بیٹھ جاتی ہو “اس کے انداز میں عجیب بے چارگی بھری تھکان موجود تھی ۔ 
”میں آپ سے ناراض نہیں ہوں “اس نے پلیٹ میں رکھے ٹشو پیپر پر سینڈوچ رکھتے ہوئے تیکھے لہجے میں کہا۔
 
”پھر یہ منہ کیوں پھلا رکھا ہے ؟“
”میرا منہ کیسا ہے اور کیسا نہیں اس کی آپ کو پروا کرنے کی ضرورت نہیں “
”مجھے بے حد پروا ہے تمہاری پارس“وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔ 
”تم کیوں بھاگ بھاگ کر ملازموں کی طرح کام کرتی ہو ؟چچا جان کی بیٹی ہو تم اس گھر پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا اور سب کا “ 
”آپ کو کیا معلوم پاپا کی مالی حالت کس قدر خستہ حال ہے بڑی مشکل سے انہوں نے اپنی عزت کا بھرم رکھا ہوا ہے۔
ورنہ حقیقت یہ ہے وہ اس وقت ایک ملازم افورڈ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ میں اس لیے بھاگ بھاگ کر کام کرتی ہوں کہ ان کو یا کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ گھر میں مزید ملازم کی ضرورت ہے “وہ محض سوچ کر رہ گئی ۔ 
”کیا سوچ رہی ہو کوئی پریشانی ہے، تم مجھ سے شیئر کرسکتی ہو “
”مجھے میری زندگی جینے دیں طغرل بھائی ! میری پروا کرنے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے ، آپ کیوں بار بار مجھے پریشان کرتے ہیں ؟“وہ جھنجھلا کر گویا ہوئیں۔
 
”بی کوز میں تم سے محبت کرتا ہوں اور اس بات سے مجھے کوئی سروکار نہیں کہ تم مجھے پسند کرتی ہو یا نہیں، میرے لیے میری یہ محبت ہی بہت ہے جو میں تم سے کرتا ہوں “
”خیالوں کی دنیا سے نکل آئیں باہر یہ دنیا صرف سبز باغ دکھاتی ہے، درحقیقت ہماری دنیا بہت ظالم و بے رحم ہے یہاں وہ ہوتا ہے جو ہماری خواہش کے برعکس ہوتا ہے پلیز طغرل بھائی مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں میں اتنی بہادر نہیں ہوں جو آپ کے اس انداز پرمسرت کا اظہار کرسکوں، میں آپ کے کسی بھی مذاق کی اہل نہیں، پلیز بہت ہوگیا اب میرا پیچھا چھوڑدیں “وہ کہہ کر تیزی سے وہاں سے نکل گئی اور طغرل ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔
 
”میں نے تم سے کہا تھا نہ تم چاہ کر بھی اس کو اپنی محبت کا یقین نہ دلاؤ گے ، وہ علیحدہ نیچر کی غیر جذباتی لڑکی ہے پھر اس نے اپنا مما پپا کو اپنی محبت کو دفن کرتے دیکھا ہے جس میں اس کا وجود بھی دب چکا ہے جو لڑکی جو اپنے باپ کے گھر میں ہی احساس ملکیت سے محروم کردی گئی ہو کس طرح وہ محبت پر یقین کرے گی ؟اور وہ بھی تمہاری محبت پر “معید جو اس کے ساتھ تھا اور باہر کھڑا سب سن رہا تھا پری کے جانے کے بعد وہاں آکر اس سے سنجیدگی سے گویا ہوا۔
 
”تم نے قدم قدم پر اس کو ہرٹ کیا ہے اپنے طنز و تضحیک کا نشانہ بناتے رہے ہو اور اس طرح اچانک محبت میں مبتلا ہوجانا اس کے لیے ناقابل فہم ہے “
”محبت اور بخار میں بندہ اچانک ہی مبتلا ہوجاتا ہے یار، فرق صرف یہ ہے بخار دواؤں سے اتر جاتا ہے جبکہ محبت کے لیے کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی لیکن تم فکر نہیں کرو میں پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہوں، پارس کے سوا میری لائف میں کوئی اور لڑکی نہیں آئے گی ، یہ میرا خود سے عہد ہے“اس کے لہجے میں سچائی اور اعتماد تھا۔
 
”وش یو گڈ لک یار! میری ساری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں “مسکراتے ہوئے وہ دونوں باہر نکل گئے، جبکہ کھڑکی کے پیچھے کھڑی عادلہ نے ان کی ساری باتیں سن لی تھیں، طغرل کی باتوں نے اس کے احساس محرومی کو مزید بھڑکادیا تھا۔ نصیب کا بھی عجیب کھیل تھا، وہ طغرل کو پانے کی چاہ میں اپنا آپ اس پر نچھاور کرنے کو تیار تھی جواباً اس کو طغرل کی دھتکار و بے اعتنائی نصیب ہوئی اور اب اسی انداز میں پری طغرل کے جذبوں کو جھٹک چکی تھی مگر پھر وہ کہہ رہا تھا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے گا ، پری کو حاصل کرکے رہے گا ۔
 
دیکھتی ہوں میں بھی مسٹر طغرل! تم میرے نہیں ہوئے تو پری کے بھی نہیں ہوگے، میں خود سے وعدہ کرتی ہوں۔ تم دونوں کی جدائی تک میں سکون سے بیٹھنے والی نہیں ہوں خواہ ایسا کرنے کے لیے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے ۔ اس نے نفرت سے مٹھی بھینچتے ہوئے سوچا۔

   1
0 Comments